بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا. النِّسَآء(۶۲)
ترجمہ: پس اس وقت کیا ہوگا جب ان پر ان کے اعمال کی بنا پر مصیبت نازل ہوگی اور وہ آپ کے پاس آکر خدا کی قسم کھائیں گے کہ ہمارا مقصد صرف نیکی کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا۔
موضوع:
یہ آیت (النساء: 62) منافقین کے طرز عمل اور ان کے نفاق کے اثرات کو بیان کرتی ہے۔
پس منظر:
سورہ نساء میں منافقین کی دوغلی پالیسی اور ان کی اصلیت کو واضح کیا گیا ہے۔ یہ آیت ان کے اس رویے پر روشنی ڈالتی ہے جب وہ مصیبت میں مبتلا ہونے کے بعد اپنی نیتوں کو نیک ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تفسیر:
1. مصیبت کا سبب: آیت اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ جو مصیبت منافقین پر آتی ہے، وہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے، جن میں جھوٹ، دھوکہ دہی اور نافرمانی شامل ہیں۔
2. منافقت کی نشانی: منافقین جب مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو اپنے حقیقی عزائم کو چھپانے کے لیے قسمیں کھاتے ہیں کہ ان کا مقصد صرف خیر خواہی اور اصلاح ہے۔
3. اخلاص کا فقدان: ان کی نیکی اور اتحاد پیدا کرنے کی دعوے محض ظاہری ہوتے ہیں، جن کے پیچھے ان کی خودغرضی اور مفاد پرستی ہوتی ہے۔
اہم نکات
اعمال کا انجام: انسان کے اعمال کے نتائج دنیا میں بھی ظاہر ہو سکتے ہیں، خاص طور پر منافقین کے لیے۔
نفاق کا انجام: نفاق اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ناقابل قبول ہے اور انجام کار ذلت و رسوائی ہے۔
اصلاح کی حقیقت: اصلاح کے لیے اخلاص ضروری ہے، ورنہ یہ عمل ریاکاری اور دھوکہ دہی میں بدل جاتا ہے۔
نتیجہ
یہ آیت اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ حقیقی اصلاح اور خیر خواہی اخلاص پر مبنی ہوتی ہے۔ منافقین کی منافقت اور جھوٹے دعوے آخر کار بے نقاب ہو جاتے ہیں، اور ان کے اعمال کا وبال ان پر نازل ہوتا ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء